جی ہاں غزہ کی مقتل گاہوں میں انسانی جان لینے کے لیے ایک اور ہتھیار (بھوک) کا سہارا لیا جارہا ہے کیونکہ بنیامن نیتن یاہو کے احکامات پر چلنے والی اسرائیلی قابض افواج کے لیے 60 ہزار افراد کو شہید کرنا کافی نہیں تھا۔ یہ تعداد انہیں کے ڈیٹا بیس کے مطابق ہیں کہ جس کے اعتبار سے جنگ کے پہلے مرحلے میں 83 فیصد نہتے شہری مارے گئے
میں نے درد کو اس کی تمام جزئیات سمیت سہا اور میں نے بارہا رنج اور نقصان کا ذائقہ چکھا۔ مگر اس کے باوجود کبھی بھی سچائی کو بگاڑ یا توڑ مروڑ کے بغیر جوں کا توں بیان کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی، تاکہ اللہ ان لوگوں کا گواہ ہو جو خاموش رہے جو ہمارے قتل پر راضی ہوئے جنہوں نے ہماری سانسیں گھونٹ دیں‘۔ صحافی انس الشریف کا آخری پیغام ان کے ایکس اکاؤنٹ پر اتوار کو غزہ میں اسرائیلی حملے کے چند گھنٹوں کے بعد پوسٹ کیا گیا تھا جس میں وہ اور ان کے تین ساتھی شہید ہوئے۔

الجزیرہ کے نمائندے انس الشریف جن کی لائیو کوریج نے دنیا کو جاری اسرائیلی نسل کشی کے بارے میں آگاہ کیا تھا، ان کی آواز کو خاموش کر دیا گیا ہے۔ لیکن ان کا آخری پیغام ان لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہونا چاہیے جو خاموشی سے غزہ کے بے بس لوگوں کے قتل عام کو قبول کررہے ہیں۔
انس الشریف اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران شہید ہونے والے ایک اور صحافی تھے۔ الجزیرہ کے مطابق، شہادت سے کچھ دیر قبل انہوں نے ’ایکس‘ پر پوسٹ کی تھی کہ ’اسرائیل، غزہ کے مشرقی اور جنوبی حصوں میں شدید بمباری کر رہا ہے (جسے فائر بیلٹ بھی کہا جاتا ہے)‘۔
وہ جانتے تھے کہ انہیں نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن وہ کبھی بھی اپنی ذمہ داری سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اطلاع ہے کہ انہوں نے اپنے ساتھی صحافی کو کہا تھا، ’میں کبھی غزہ نہیں چھوڑوں گا اور صرف اس صورت میں چھوڑوں گا کہ جب میں اوپر چلا جاؤں گا! میں غزہ نہیں چھوڑوں گا پھر چاہے مجھے مار ہی کیوں نہ دیا جائے‘۔
انس الشریف اکتوبر 2023ء میں اسرائیلی حملے کے بعد سے غزہ سے رپورٹنگ کر رہے تھے اور اسرائیل کی ہٹ لسٹ پر تھے۔ ان کے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے، اسرائیلی فوج نے صحافی پر حماس کے کارکن ہونے کا الزام لگایا۔ البتہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب اسرائیل نے مقتول صحافیوں پر اس طرح کا لیبل لگایا ہو۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کے مطابق، اکتوبر 2023ء میں حماس کے حملے اور اسرائیل کی جانب سے غزہ پر فوجی حملے شروع کیے جانے کے بعد سے کم از کم 186 صحافی مارے جاچکے ہیں۔ اسے ’صحافیوں کے لیے سب سے مہلک دور کے طور پر بیان کیا گیا ہے جب ’سی پی جے‘ نے 1992ء میں اس طرح کے ڈیٹا کو ریکارڈ کرنا شروع کیا‘۔
سی پی جے نے کہا کہ ’اسرائیل پیغام پہنچانے والے قاصدوں کو قتل کر رہا ہے‘۔ واٹسن اسکول آف انٹرنیشنل اینڈ پبلک افیئرز کے جنگی اخراجات کے منصوبے نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ غزہ تنازع نے ’امریکی خانہ جنگی، پہلی اور دوسری جنگ عظیم، کوریا کی جنگ، ویتنام کی جنگ۔۔۔ 1990ء اور 2000ء کی دہائیوں میں یوگوسلاویا میں ہونے والی جنگوں اور افغانستان میں 9/11 کے بعد سے شروع ہونے والی جنگ سے زیادہ صحافیوں کو قتل کیا ہے‘۔
اسرائیل نے صحافیوں پر غزہ کی نسل کش جنگ کی رپورٹنگ کرنےکی پابندی لگادی ہے۔ غزہ جنگ کے بارے میں مغربی میڈیا میں زیادہ تر رپورٹس اسرائیلی فوجی ذرائع سے موصول ہورہی ہیں جو بڑی حد تک اسرائیل کے جنگی جرائم پر پردہ ڈال کر پیش کی جاتی ہیں۔
انس الشریف کا ’جرم‘ یہ تھا کہ وہ حال ہی میں اسرائیل کی طرف سے تباہ شدہ علاقے میں کئی ماہ سے جاری خوراک اور دیگر انسانی امداد پہنچانے کی اجازت دینے سے انکار کی وجہ سے پیدا ہونے والی فاقہ کشی کی صورت حال کے بارے میں رپورٹ کر رہے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ کس طرح اسرائیلی فوجیوں نے امداد کے منتظر لوگوں کو قتل کیا۔ تقریباً 20 لاکھ لوگ اس وقت فاقہ کشی کی حالت میں ہیں۔ بھوک کی وجہ سے سیکڑوں بچے شہید ہوچکے ہیں۔ اپریل میں انتونیو گوتریس نے غزہ میں تباہ کن صورت حال کے حوالے سے خبردار کیا تھا۔ انہوں نے زور دے کر کہا تھا کہ ’غزہ قتل و غارت گری کا میدان ہے اور عام شہری موت کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کی لپیٹ میں ہیں‘۔
ان کے تبصرے کے بعد اقوام متحدہ کی 6 ایجنسیوں کے سربراہان نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ فلسطینیوں تک خوراک اور امداد کی پہنچ کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدام کریں۔ لیکن عالمی برادری صہیونی ریاست کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔

حالیہ دنوں میں غزہ میں جس قدر قتل و غارت اور تباہی دیکھی گئی ہے اس کی مثالیں بہت کم ہیں۔ یہ سب امریکا اور بعض دیگر مغربی ممالک کی خاموش حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔ انس الشریف کے بقول، ’ان کے دل ہمارے بچوں اور عورتوں کے مسخ شدہ لاشے دیکھ کر بھی نہ پگھلے اور انہوں نے اس قتلِ عام کو نہ روکا جو ہمارے عوام ڈیڑھ سال سے زائد عرصے سے سہہ رہے ہیں‘۔
نسل کشی کے حوالے سے عرب اقوام کی بے حسی، صہیونیوں کے جرم کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔ وہ انس الشریف اور دیگر صحافیوں کے قتل کے بعد بھی خاموش ہیں جنہوں نے اسرائیل کے جرائم سے دنیا کو آگاہ کرنے کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈال دیں۔ حتیٰ کہ اسرائیل کے ہاتھوں ہزاروں فلسطینی مرد، عورتیں اور بچے مارے جا رہے ہیں لیکن یہ عرب ممالک کسی ایک فریق کا ساتھ دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔
اسرائیل اپنی فوجی کارروائیاں تیز کر رہا ہے کیونکہ اس کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت نے حال ہی میں غزہ کی پٹی پر مستقل طور پر قبضہ کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے، اس طرح مقبوضہ پٹی کی پوری آبادی کو حراستی کیمپ میں دھکیل دیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ اسرائیل کے پاس آگے بڑھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ حماس نے ہتھیار نہیں ڈالے ہیں۔
یہ صہیونی ریاست کے لیے صرف ایک بہانہ ہے جو مقبوضہ علاقے کو ضم کرنا چاہتی ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے جیسا کہ ’الجزیرہ‘ نے اشارہ کیا ہے کہ اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں صحافیوں کی حالیہ شہادتیں ’غزہ پر قبضے کی صورت میں اٹھنے والی متوقع آوازیں خاموش کرنے کی ایک مایوس کن کوشش ہے‘۔
غزہ پر فوجی قبضے کے نیتن یاہو کے منصوبے کے عالمی امن پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ اقوام متحدہ کے سربراہ کے مطابق، یہ ’خطرناک کشیدگی کی علامت ہے اور اس سے لاکھوں فلسطینیوں کے لیے پہلے سے ہی تباہ کن نتائج کو مزید سنگین بنانے کا خطرہ ہے‘۔
اس ارادے پر بعض مغربی ممالک (بشمول جنہوں نے اسرائیل کے فوجی حملے کی حمایت کی تھی) نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ آسٹریلیا، جرمنی، اٹلی، نیوزی لینڈ اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ بیان میں اسرائیل کے منصوبے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی ہوگی۔
لیکن زمین کو توسیع دینے کے اس منصوبے پر امریکا نے خاموشی اختیار کی ہے۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس منصوبے کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خاموش منظوری حاصل ہے جنہوں نے اس سال کے آغاز میں غزہ کی آبادی کو مکمل طور پر خالی کرنے کی تجویز دی تھی تاکہ علاقے کو ’رویرا‘ میں تبدیل کیا جا سکے۔ امریکا نے غزہ میں مستقل جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ہر قرارداد کو بھی ویٹو کر دیا ہے۔ کوئی تعجب نہیں کہ بینجمن نیتن یاہو نے ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا ہے۔
انس الشریف کے قتل اور ان کے آخری پیغام نے اسرائیل کے خلاف پوری دنیا میں عوامی غم و غصے کو بڑھا دیا ہے۔ لیکن کیا عالمی برادری اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ کو روکنے کے لیے اب واقعی کوئی اقدامات کرے گی؟۔
